DECEMBER 05, 2017 | 12:00 AM
اگر یہ نہ ہوتا
دوحہ میں موسم میں شدت نہیں تھی مگر تہران میں موسم خاصا سرد ہے، چونکہ ایران میں فارسی بولی جاتی ہے تو مجھے تزک تیموری، تزک بابری، تزک جہانگیری کے ساتھ ساتھ گلستان سعدیؒ اور بوستان سعدیؒ یاد آ رہی ہیں۔ اقبالؒ کے فارسی اشعار بھی یاد آ رہے ہیں شاید بہت کم لوگوں کو پتہ ہو کہ حضرت سلطان باہوؒ نے زیادہ کتابیں فارسی زبان میں لکھیں۔ میں نے کئی عرب ممالک دیکھے اور پھر ایک قوم کے طور پر کھڑے ہونے والے ایرانیوں کو دیکھا تو ایک فرق صاف محسوس ہوا کہ عربوں نے علم سے تعلق جوڑا نہیں اور ایرانیوں نے علم کو چھوڑا نہیں۔
آج چونکہ میرا ایران میں پہلا دن ہے اور میں تہران کے ایک بڑے ہوٹل میں چند منٹ پہلے آیا ہوں اور اب اس کی اٹھارہویں منزل کے ایک بالائی کمرے سے یہ سطور رقم کر رہا ہوں مجھے ابھی بہت سے ایرانیوں سے ملنے کا اتفاق بھی نہیں ہوا، البتہ میں جس کانفرنس میں شرکت کے لئے تہران آیا ہوں اس میں دنیا بھر سے مختلف دانشور شریک ہیں یہاں کانفرنس میں شریک کئی غیرملکیوں سے راستے میں ہلکی پھلکی گپ شپ ہوئی ہے۔ ایرانیوں سے ملاقاتوں کے بعد ہی ایران پر تبصرہ زیادہ جامع انداز میں کرسکوں گا۔ فی الحال اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ایرانیوں نے چینیوں کی طرح مغربی لباس کو اپنا لباس بنا لیا ہوا ہے۔ یہاں خواتین بھی زیربرقعہ مغربی لباس ہی استعمال کرتی ہیں۔ ایرانیوں نے چینیوں کی طرح انسانوں سمیت درختوں کو سید ھا رکھا ہوا ہے مگر چینیوں اور ایرانیوں میں ایک بنیادی فرق ضرور ہے چینی کام کو جلد نمٹاتے ہیں جبکہ ایرانی ذرا تسلی سے کام کے عادی ہیں۔ باقی بطور قوم چینی بھی اہم ہیں اور ایرانی بھی اہم ہیں۔ چین جنگوں سے بچا رہا، اس نے ساری توجہ ترقی پر دی مگر ایران ایسا ملک ہے جو جنگوں میں رہ کر بھی ترقی کر گیا، جسے دنیا بھر کی پابندیوں کا سامنا تھا مگر ان تمام تر پابندیوں کے باوجود ایران ترقی کر گیا، ایران بہت سے شعبوں میں ہم سے آگے ہے۔ اس کا تذکرہ کسی اگلے کالم میں کروں گا۔
یہاں مجھے جی سی یو کے دو اساتذہ بھی شدت سے یاد آئے کیونکہ وہ فارسی کے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی ذوق کے حامی ہیں ان میں ایک تو ڈاکٹر اقبال شاہد ہیں جبکہ دوسری پروفیسر ڈاکٹر صائمہ ارم ہیں ان دونوں نے لاہور میں فارسی کی خاصی خدمت کی ہے ۔ ایک بات مجھے ضرور کرنی چاہئے جو میں پچھلے چند سالوں سے دیکھ رہا ہوں پتہ نہیں انسانوں نے کیوں اتنی مجبوریاں پال رکھی ہیں کہ سیل فون ان کی جان بن گیا ہے۔ آپ کو اکثر اس بات کا مشاہدہ ہوا ہو گا کہ لوگ ایئر پورٹوں کے لائونجز میں وائی فائی ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں ریسٹورنٹوں میں بھی یہی حال ہے اب تو لوگ چائے خانوں پر بھی وائی فائی ڈھونڈتے ہیں بسوں اور ٹرینوں میں بھی یہی صورتحال ہے جہاز جب تک اڑ نہ جائے لوگ موبائل فون کی جان نہیں چھوڑتے اور جہاز اترتا ہے وہ سب سے پہلے موبائل فون آن کرتے ہیں اس موبائل فون سے پہلے بھی زندگی تھی پہلے بھی لوگ سفر کرتے تھے۔ لائونجز میں بیٹھتے تھے۔ ہوٹلوں اور ریستوراتوں میں جاتے تھے مگر وائی فائی نہیں ڈھونڈتے تھے۔ مانا کہ اس موبائل فون نے اطلاعات تک رسائی لمحوں میں سمیٹ دی ہے۔ مگر یہ بھی تو یاد رکھو کہ اس موبائل فون نے انسان کو انسان سے دور کر دیا ہے۔
میں کئی مرتبہ دیکھتا ہوں کہ ہوٹلوں میں بیٹھے ہوئے لوگ موبائل فون پر تو لگے ہوتے ہیں مگر سامنے بیٹھے انسانوں سے گپ شپ نہیں کر رہے ہوتے یہی حال بسوں اور ٹرینوں میں ہو گیا ہے۔انتظار گاہوں میں بھی یہی صورتحال ہے۔ کچھ خیال کرنا چاہئے ہر وقت انسانوں سے دوری مناسب نہیں۔ موبائل فون نے رشتوں سے بھی دور کر دیا ہے۔ کوئی کسی کو پیاربھری نظروں سے کیا دیکھے اسے تو فون کی سکرین سے فرصت نہیں۔ کچھ دیر کیلئے سوچئے کہ ہم جو کچھ جڑے رہے کہ نام پر کرتے ہیں ۔ کیا اس سے رشتے دوستیاں مضبوط ہوں گی؟ بقول غالب
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا
https://jang.com.pk/print/413765-agar-ye-na-hotaآج چونکہ میرا ایران میں پہلا دن ہے اور میں تہران کے ایک بڑے ہوٹل میں چند منٹ پہلے آیا ہوں اور اب اس کی اٹھارہویں منزل کے ایک بالائی کمرے سے یہ سطور رقم کر رہا ہوں مجھے ابھی بہت سے ایرانیوں سے ملنے کا اتفاق بھی نہیں ہوا، البتہ میں جس کانفرنس میں شرکت کے لئے تہران آیا ہوں اس میں دنیا بھر سے مختلف دانشور شریک ہیں یہاں کانفرنس میں شریک کئی غیرملکیوں سے راستے میں ہلکی پھلکی گپ شپ ہوئی ہے۔ ایرانیوں سے ملاقاتوں کے بعد ہی ایران پر تبصرہ زیادہ جامع انداز میں کرسکوں گا۔ فی الحال اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ایرانیوں نے چینیوں کی طرح مغربی لباس کو اپنا لباس بنا لیا ہوا ہے۔ یہاں خواتین بھی زیربرقعہ مغربی لباس ہی استعمال کرتی ہیں۔ ایرانیوں نے چینیوں کی طرح انسانوں سمیت درختوں کو سید ھا رکھا ہوا ہے مگر چینیوں اور ایرانیوں میں ایک بنیادی فرق ضرور ہے چینی کام کو جلد نمٹاتے ہیں جبکہ ایرانی ذرا تسلی سے کام کے عادی ہیں۔ باقی بطور قوم چینی بھی اہم ہیں اور ایرانی بھی اہم ہیں۔ چین جنگوں سے بچا رہا، اس نے ساری توجہ ترقی پر دی مگر ایران ایسا ملک ہے جو جنگوں میں رہ کر بھی ترقی کر گیا، جسے دنیا بھر کی پابندیوں کا سامنا تھا مگر ان تمام تر پابندیوں کے باوجود ایران ترقی کر گیا، ایران بہت سے شعبوں میں ہم سے آگے ہے۔ اس کا تذکرہ کسی اگلے کالم میں کروں گا۔
یہاں مجھے جی سی یو کے دو اساتذہ بھی شدت سے یاد آئے کیونکہ وہ فارسی کے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی ذوق کے حامی ہیں ان میں ایک تو ڈاکٹر اقبال شاہد ہیں جبکہ دوسری پروفیسر ڈاکٹر صائمہ ارم ہیں ان دونوں نے لاہور میں فارسی کی خاصی خدمت کی ہے ۔ ایک بات مجھے ضرور کرنی چاہئے جو میں پچھلے چند سالوں سے دیکھ رہا ہوں پتہ نہیں انسانوں نے کیوں اتنی مجبوریاں پال رکھی ہیں کہ سیل فون ان کی جان بن گیا ہے۔ آپ کو اکثر اس بات کا مشاہدہ ہوا ہو گا کہ لوگ ایئر پورٹوں کے لائونجز میں وائی فائی ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں ریسٹورنٹوں میں بھی یہی حال ہے اب تو لوگ چائے خانوں پر بھی وائی فائی ڈھونڈتے ہیں بسوں اور ٹرینوں میں بھی یہی صورتحال ہے جہاز جب تک اڑ نہ جائے لوگ موبائل فون کی جان نہیں چھوڑتے اور جہاز اترتا ہے وہ سب سے پہلے موبائل فون آن کرتے ہیں اس موبائل فون سے پہلے بھی زندگی تھی پہلے بھی لوگ سفر کرتے تھے۔ لائونجز میں بیٹھتے تھے۔ ہوٹلوں اور ریستوراتوں میں جاتے تھے مگر وائی فائی نہیں ڈھونڈتے تھے۔ مانا کہ اس موبائل فون نے اطلاعات تک رسائی لمحوں میں سمیٹ دی ہے۔ مگر یہ بھی تو یاد رکھو کہ اس موبائل فون نے انسان کو انسان سے دور کر دیا ہے۔
میں کئی مرتبہ دیکھتا ہوں کہ ہوٹلوں میں بیٹھے ہوئے لوگ موبائل فون پر تو لگے ہوتے ہیں مگر سامنے بیٹھے انسانوں سے گپ شپ نہیں کر رہے ہوتے یہی حال بسوں اور ٹرینوں میں ہو گیا ہے۔انتظار گاہوں میں بھی یہی صورتحال ہے۔ کچھ خیال کرنا چاہئے ہر وقت انسانوں سے دوری مناسب نہیں۔ موبائل فون نے رشتوں سے بھی دور کر دیا ہے۔ کوئی کسی کو پیاربھری نظروں سے کیا دیکھے اسے تو فون کی سکرین سے فرصت نہیں۔ کچھ دیر کیلئے سوچئے کہ ہم جو کچھ جڑے رہے کہ نام پر کرتے ہیں ۔ کیا اس سے رشتے دوستیاں مضبوط ہوں گی؟ بقول غالب
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا
NOVEMBER 14, 2017 | 12:00 AM
پاکستان کے اصل دشمن
قریباً دو برس پہلے میں نے جنگ کے انہی صفحات پر لکھا تھا کہ 2020ء سے پہلے ایک عرب اسلامی ملک میں حالات بدل جائیں گے اور حکمران ہی نہیں طرزِ حکمرانی بھی بدل جائے گا۔ کچھ لوگوں نے میری باتوں کو مذاق سمجھا۔ ایسے لوگوں کی خدمت اقدس میں عرض ہے کہ بہت کچھ بدلنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ شہزادے ولید بن طلال کی اکیس سالہ بیٹی ریم کو ملک سے نکال دیا گیا ہے، وہ ملک بدر ہو چکی ہیں، انہیں گرفتار کر کے ملک بدر کیا گیا۔ اگرچہ موجودہ ولی عہد معاشرے میں وسیع تبدیلیوں کے حامی ہیں وہ عورتوں کو آزادی دینے کے قائل ہیں، عورتوں کو ڈرائیونگ لائسنس دینے کے حامی ہیں، عورتوں کی فورسز میں شمولیت چاہتے ہیں۔ ان تمام خواہشوں کے باوجود گھر کا روگ سلامت ہے۔ دراصل یہ خاندانی چپقلش ہے۔ برادر اسلامی ملک میں قریباً گیارہ ہزار شہزادے اور شہزادیاں ہیں اور اس وقت نصف سے زائد گھروں میں نظربند ہیں۔ یہی نہیں ان کو جیب خرچ کے لئے ہر مہینے ملنے والا تین لاکھ ریال کا وظیفہ بھی بند ہے۔ واضح رہے کہ ہر شہزادے کو ہر ماہ جیب خرچ کے لئے تین لاکھ ریال ملتا ہے۔ ان شہزادوں کی زندگیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب وہ فرانس یا انڈونیشیا جاتے ہیں تو ان کے جانے سے مہینہ پہلے ان کا تمام سامان پہنچایا جاتا ہے، اس میں کیا برتن تو کیا بیڈ، کیا گھوڑے تو کیا بلیاں، یہ سب اور اس کے علاوہ بہت کچھ۔ لیکن اس وقت شاہی خاندان کے حالات عجیب و غریب ہیں۔ ملک کے فرمانروا اپنے کم عمر فرزند کو شاہ کے روپ میں دیکھنے کے خواہاں ہیں جبکہ شہزادے شہزادیوں کی اکثریت محمد بن نائف کی حامی ہے اور محمد بن نائف بھی اس وقت گرفتار ہے۔ برادر اسلامی ملک میں واضح تبدیلیاں ہوں گی خواہ اس میں دو سال مزید لگ جائیں۔ یاد رکھنا دولت جتنی بھی ہو، اس کا انجام رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔
شاید آپ کو یاد نہ ہو میں نے برادر اسلامی ملک کے علاوہ بھارت کے بارے میں بھی لکھا تھا کہ بھارت موجودہ روپ میں نہیں رہ سکے گا، ٹوٹنا بھارت کا مقدر ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہندوستان میں ناچتی ہوئی غربت ہے، آپ نریندر مودی یا اجیت کمار دوول کی خوش بیانیاں نہ دیکھیں بلکہ یہ دیکھیں کہ بھارت کے 29صوبوں میں سے 22صوبے آزادی مانگ رہے ہیں کچھ تو ایسے ہیں جہاں پاکستانی پرچم لہرانا معمول ہے۔ کارگل جنگ کے دوران جو دو سو توپیں بیکار ہوئی تھیں وہ ابھی تک بیکار ہیں جو 32طیارے گرائونڈ ہوئے تھے وہ ابھی تک ٹھیک نہیں ہو سکے۔ بھارت معاشی طور پر مقروض ملک ہے، معیشت کو سہارا دینے کے لئے کئی ناٹک کئے جا رہے ہیں اور اس دوران عوامی زندگی مشکل سے مشکل ترین ہو گئی ہے۔ سو مودی کی بڑھکیں بھارت کو بربادی سے نہیں بچا سکتیں۔
اب آتے ہیں پاکستان کے اصل دشمنوں کی طرف۔ پاکستان کے اصل دشمنوں کی کہانی عجیب ہے۔ انہوں نے پاکستان کے اکثر ادارے تباہ کئے، کچھ اداروں پر تنقید ان کا شیوہ ہے، انہوں نے ملک کو ایسے لوٹا جیسے ڈاکو لوٹتے ہیں۔ ان لوگوں نے اقتدار کی مدد سے ملک کو لوٹا، لوگوں کی زمینوں پر، لوگوں کے گھروں پر قبضے کئے۔ یہ لوگ اقتدار کے طفیل ہر طرح کی دھونس دھاندلی کرتے رہے۔ یہ لوگ مکمل مافیا کے روپ میں نظر آئے۔ انہوں نے دولت کی دوڑ میں ملک کو مقروض کیا، دنیا کو سکھانے والی پی آئی اے خسارے میں ہے، بھارتی ریلوے نفع بخش جبکہ پاکستانی ریلوے خسارے کا انبوہِ کثیر ہے۔ صنعت تباہ ہو چکی ہے، زراعت کی بربادیوں کا سفر جاری ہے۔ دولت کے پجاری ملکی دولت لوٹ کر دوسرے ملکوں میں منتقل کرتے ہیں۔ حالات کیا ہیں اس کے مختصر سے جائزے کے لئے چند باتیں لکھ رہا ہوں۔ ڈاکٹر محبوب الحق کے پانچ سالہ منصوبوں پر عمل کرنے والے کوریا اور سنگا پور ہم سے کہیں آگے نکل گئے۔ آج حالات یہ ہیں کہ پاکستان پوسٹ میں اصلاحات کے لئے کوریا سے ساڑھے سات ارب کا قرضہ لیا جا رہا ہے۔ اس سال بنگلہ دیش کا برآمدات سے ہونے والا منافع تیس ارب ڈالر ہے جبکہ پاکستان کا تجارتی خسارہ بتیس ارب ڈالرز ہے اور حیرت ہے کہ پاکستان کا بیمار وزیر خزانہ اس پر شرمندہ بھی نہیں بلکہ وہ دنیا کا انوکھا وزیر خزانہ ہے جو درآمدات بڑھنے پر فخر کر رہا ہے۔ پچھلے ستر سالوں میں ہماری برآمدات اتنی کم کبھی نہیں ہوئی تھیں جتنی اس وزیر خزانہ کے عہد میں ہو گئی ہیں۔ اتنے بڑے قرضے ہم نے کبھی نہیں لئے تھے جتنے پچھلے چار سالوں میں لے لئے ہیں۔ ابھی پنجاب میں 56کمپنیوں کی کرپشن کی داستان ختم نہیں ہوئی تھی کہ لاکھڑا پاور جنریشن میں نو ساڑھے نو ارب کا نقصان ہو گیا ہے۔ کوئلہ کے پروجیکٹ پنجاب کے زرخیز ترین پانچ چھ اضلاع کی زمینوں کو بنجر بنانے کے لئے کافی ہیں۔ شہروں میں ٹریفک، ہولناک آلودگی، ہر طرف بیماریاں، بے روزگاری، مہنگائی اور مسائل کا انبار، یہ ہے وہ پاکستان جو پاکستان لوٹنے والوں نے بنا دیا ہے۔ اب جب اس مافیا کے حساب کا وقت قریب آ گیا ہے تو یہ ایک دوسرے کو بچانے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ خوف کا یہ عالم ہے کہ سعد رفیق کہہ رہے ہیں کہ ’’دعا کریں، وہ وقت نہ آئے کہ سب کو ٹرک میں بیٹھنا پڑے‘‘ پاکستان کے کرپٹ ترین سیاسی مافیا کو دیکھتا ہوں تو مجھے کاروباری شخصیت صدر الدین ہاشوانی یاد آ جاتے ہیں۔ چند روز پہلے یعنی 9نومبر کی دوپہر وہ مجھ سے مخاطب ہوئے، کہنے لگے کہ ’’تماشا دیکھ رہا ہوں‘‘ میں نے پوچھا، تماشائے اہل کرم، تو بولے ’’نہیں تماشائے اہل عذاب، کیونکہ ان لوگوں نے دولت کو خدا بنا رکھا ہے، کیا پاکستان کے سیاسی لٹیروں کو یہ یاد نہیں کہ کفن کے جیب نہیں ہوتے‘‘ کاش ان کو یاد ہوتا، کاش یہ پاکستان کا سوچتے، یہ وہی کھوٹے سکے ہیں جن کی نشاندہی قائد اعظمؒ نے کی تھی۔ قائداعظمؒ تو صدارتی نظام کے حامی تھے اب جب صدارتی نظام دستک دے رہا ہے تو کھوٹے سکے پریشان ہیں۔ اس پریشانی میں انہوں نے پاکستانی اداروں کو ہدف تنقید بنا رکھا ہے جبکہ ان کے بارے میں اسلم گورداسپوری کہہ رہا ہے کہ ؎
جو کیا ہے اس کی خبر نہیں، نہ ہی دل میں اس کا ملال ہے
’’مجھے کیوں نکالا‘‘ ہے خلد سے، یہی ایک لب پے سوال ہے
https://jang.com.pk/print/403993-pakistan-ke-asal-dushmanشاید آپ کو یاد نہ ہو میں نے برادر اسلامی ملک کے علاوہ بھارت کے بارے میں بھی لکھا تھا کہ بھارت موجودہ روپ میں نہیں رہ سکے گا، ٹوٹنا بھارت کا مقدر ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہندوستان میں ناچتی ہوئی غربت ہے، آپ نریندر مودی یا اجیت کمار دوول کی خوش بیانیاں نہ دیکھیں بلکہ یہ دیکھیں کہ بھارت کے 29صوبوں میں سے 22صوبے آزادی مانگ رہے ہیں کچھ تو ایسے ہیں جہاں پاکستانی پرچم لہرانا معمول ہے۔ کارگل جنگ کے دوران جو دو سو توپیں بیکار ہوئی تھیں وہ ابھی تک بیکار ہیں جو 32طیارے گرائونڈ ہوئے تھے وہ ابھی تک ٹھیک نہیں ہو سکے۔ بھارت معاشی طور پر مقروض ملک ہے، معیشت کو سہارا دینے کے لئے کئی ناٹک کئے جا رہے ہیں اور اس دوران عوامی زندگی مشکل سے مشکل ترین ہو گئی ہے۔ سو مودی کی بڑھکیں بھارت کو بربادی سے نہیں بچا سکتیں۔
اب آتے ہیں پاکستان کے اصل دشمنوں کی طرف۔ پاکستان کے اصل دشمنوں کی کہانی عجیب ہے۔ انہوں نے پاکستان کے اکثر ادارے تباہ کئے، کچھ اداروں پر تنقید ان کا شیوہ ہے، انہوں نے ملک کو ایسے لوٹا جیسے ڈاکو لوٹتے ہیں۔ ان لوگوں نے اقتدار کی مدد سے ملک کو لوٹا، لوگوں کی زمینوں پر، لوگوں کے گھروں پر قبضے کئے۔ یہ لوگ اقتدار کے طفیل ہر طرح کی دھونس دھاندلی کرتے رہے۔ یہ لوگ مکمل مافیا کے روپ میں نظر آئے۔ انہوں نے دولت کی دوڑ میں ملک کو مقروض کیا، دنیا کو سکھانے والی پی آئی اے خسارے میں ہے، بھارتی ریلوے نفع بخش جبکہ پاکستانی ریلوے خسارے کا انبوہِ کثیر ہے۔ صنعت تباہ ہو چکی ہے، زراعت کی بربادیوں کا سفر جاری ہے۔ دولت کے پجاری ملکی دولت لوٹ کر دوسرے ملکوں میں منتقل کرتے ہیں۔ حالات کیا ہیں اس کے مختصر سے جائزے کے لئے چند باتیں لکھ رہا ہوں۔ ڈاکٹر محبوب الحق کے پانچ سالہ منصوبوں پر عمل کرنے والے کوریا اور سنگا پور ہم سے کہیں آگے نکل گئے۔ آج حالات یہ ہیں کہ پاکستان پوسٹ میں اصلاحات کے لئے کوریا سے ساڑھے سات ارب کا قرضہ لیا جا رہا ہے۔ اس سال بنگلہ دیش کا برآمدات سے ہونے والا منافع تیس ارب ڈالر ہے جبکہ پاکستان کا تجارتی خسارہ بتیس ارب ڈالرز ہے اور حیرت ہے کہ پاکستان کا بیمار وزیر خزانہ اس پر شرمندہ بھی نہیں بلکہ وہ دنیا کا انوکھا وزیر خزانہ ہے جو درآمدات بڑھنے پر فخر کر رہا ہے۔ پچھلے ستر سالوں میں ہماری برآمدات اتنی کم کبھی نہیں ہوئی تھیں جتنی اس وزیر خزانہ کے عہد میں ہو گئی ہیں۔ اتنے بڑے قرضے ہم نے کبھی نہیں لئے تھے جتنے پچھلے چار سالوں میں لے لئے ہیں۔ ابھی پنجاب میں 56کمپنیوں کی کرپشن کی داستان ختم نہیں ہوئی تھی کہ لاکھڑا پاور جنریشن میں نو ساڑھے نو ارب کا نقصان ہو گیا ہے۔ کوئلہ کے پروجیکٹ پنجاب کے زرخیز ترین پانچ چھ اضلاع کی زمینوں کو بنجر بنانے کے لئے کافی ہیں۔ شہروں میں ٹریفک، ہولناک آلودگی، ہر طرف بیماریاں، بے روزگاری، مہنگائی اور مسائل کا انبار، یہ ہے وہ پاکستان جو پاکستان لوٹنے والوں نے بنا دیا ہے۔ اب جب اس مافیا کے حساب کا وقت قریب آ گیا ہے تو یہ ایک دوسرے کو بچانے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ خوف کا یہ عالم ہے کہ سعد رفیق کہہ رہے ہیں کہ ’’دعا کریں، وہ وقت نہ آئے کہ سب کو ٹرک میں بیٹھنا پڑے‘‘ پاکستان کے کرپٹ ترین سیاسی مافیا کو دیکھتا ہوں تو مجھے کاروباری شخصیت صدر الدین ہاشوانی یاد آ جاتے ہیں۔ چند روز پہلے یعنی 9نومبر کی دوپہر وہ مجھ سے مخاطب ہوئے، کہنے لگے کہ ’’تماشا دیکھ رہا ہوں‘‘ میں نے پوچھا، تماشائے اہل کرم، تو بولے ’’نہیں تماشائے اہل عذاب، کیونکہ ان لوگوں نے دولت کو خدا بنا رکھا ہے، کیا پاکستان کے سیاسی لٹیروں کو یہ یاد نہیں کہ کفن کے جیب نہیں ہوتے‘‘ کاش ان کو یاد ہوتا، کاش یہ پاکستان کا سوچتے، یہ وہی کھوٹے سکے ہیں جن کی نشاندہی قائد اعظمؒ نے کی تھی۔ قائداعظمؒ تو صدارتی نظام کے حامی تھے اب جب صدارتی نظام دستک دے رہا ہے تو کھوٹے سکے پریشان ہیں۔ اس پریشانی میں انہوں نے پاکستانی اداروں کو ہدف تنقید بنا رکھا ہے جبکہ ان کے بارے میں اسلم گورداسپوری کہہ رہا ہے کہ ؎
جو کیا ہے اس کی خبر نہیں، نہ ہی دل میں اس کا ملال ہے
’’مجھے کیوں نکالا‘‘ ہے خلد سے، یہی ایک لب پے سوال ہے
No comments:
Post a Comment