Sunday, 10 November 2019

A World Free of Sorrow Found

A World Free of Sorrow Found

Looking For the Magical Mustard Seed

Story of Determination - Brooklyn Bridge

*خاندان اور خون کی پہچان* 
سلطان محمود غزنوی کا دربار لگا ھوا تھا. دربار میں ہزاروں افراد شریک تھے جن میں اولیاء قطب اور ابدال بھی تھے۔ سلطان محمود نے سب کو مخاطب کر کے کہا کوئی شخص مجھے حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کرا سکتا ہے
سب خاموش رہے دربار میں بیٹھا اک غریب دیہاتی کھڑا ہوا اور کہا میں زیارت کرا سکتا ہوں .سلطان نے شرائط پوچھی تو عرض کرنے لگا 6 ماہ دریا کے کنارے چلہ کاٹنا ہو گا لیکن میں اک غریب آدمی ہوں میرے گھر کا خرچا آپ کو اٹھانا ہو گا
سلطان نے شرط منظور کر لی اس شخص کو چلہ کے لیے بھج دیا گیا اور گھر کا  خرچہ بادشاہ کے ذمے ہو گیا   6 ماہ
 گزرنے کے بعد سلطان نے اس شخص کو دربار میں حاضر کیا اور پوچھا تو  دیہاتی کہنے لگا حضور کچھ وظائف الٹے ہو گئے ہیں لہٰذا 6 ماہ مزید لگیں گے
مزید 6 ماہ گزرنے کے بعد سلطان محمود کے دربار میں اس شخص کو دوبارہ پیش کیا گیا تو بادشاہ نے پوچھا میرے کام کا کیا ہوا.... ؟
یہ بات سن کے دیہاتی کہنے لگا بادشاہ سلامت کہاں میں گنہگار اور کہاں حضرت خضر علیہ السلام - میں نے آپ سے جھوٹ بولا .... میرے گھر کا خرچا پورا نہیں ہو رہا تھا بچے بھوک سے مر رہے تھے اس لیے ایسا کرنے پر مجبور ہوا
سلطان محمود غزنوی نے اپنے اک وزیر کو کھڑا کیا اور پوچھا اس شخص کی سزا کیا ہے . وزیر نے کہا حضور اس شخص نے بادشاہ کے ساتھ جھوٹ بولا ھے۔ لہٰذا اس کا گلا کاٹ دیا جائے . دربار میں اک نورانی چہرے والے بزرگ بھی تشریف فرما تھے، کہنے لگے بادشاہ سلامت اس وزیر نے بالکل ٹھیک کہا
بادشاہ نے دوسرے وزیر سے پوچھا آپ بتاو اس نے کہا حضور اس شخص نے بادشاہ کے ساتھ فراڈ کیا ہے اس کا گلا نہ کاٹا جائے بلکہ اسے کتوں کے آگے ڈالا جائے تاکہ یہ ذلیل ہو کہ مرے اسے مرنے میں کچھ وقت تو لگے دربار میں بیٹھے اسی نورانی چہرے والے بزرگ نے کہا بادشاہ سلامت یہ وزیر بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے
سلطان محمود غزنوی نے اپنے پیارے غلام ایاز سے پوچھا تم کیا کہتے ہو؟ ایاز نے کہا بادشاہ سلامت آپ کی بادشاہی سے اک سال اک غریب کے بچے پلتے رہے آپ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آیی اور نہ ہی اس کے جھوٹ سے آپ کی شان میں کوئی فرق پڑا اگر میری بات مانیں، تو اسے معاف کردیں اگر اسے قتل کر دیا تو اس کے بچے بھوک سے مر جائیں گے - ایاز کی یہ بات سن کر محفل میں بیٹھا وہی نورانی چہرے والا بابا کہنے لگا - ایاز بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے 
سلطان محمود غزنوی نے اس بابا جی کو بلایا اور پوچھا آپ نے ہر وزیر کے فیصلے کو درست کہا اس کی وجہ مجھے سمجھائی جائے
بابا جی کہنے لگا بادشاہ سلامت پہلے نمبر پر جس وزیر نے کہا اس کا گلا کاٹا جائے وہ قوم کا قصائی ہے اور قصائی کا کام ہے گلے کاٹنا اس نے اپنا خاندانی رنگ دکھایا غلطی اس کی نہیں آپ کی ہے کہ آپ نے اک قصائی کو وزیر بنا لیا
دوسرا جس نے کہا اسے کتوں کے آگے ڈالا جائے اُس وزیر کا والد بادشاہوں کے کتے نہلایا کرتا تھا کتوں سے شکار کھیلتا تھا اس کا کام ہی کتوں کا شکار ہے تو اس نے اپنے خاندان کا تعارف کرایا آپ کی غلطی یے کہ ایسے شخص کو وزارت دی جہاں ایسے لوگ وزیرہوں وہاں لوگوں نے بھوک سے ھی مرنا ہے
اور تیسرا ایاز نے جو فیصلہ کیا تو سلطان محمود سنو ایاز سیّد زادہ ہے سیّد کی شان یہ ہے کہ سیّد اپنا سارا خاندان کربلا میں ذبح کرا دیتا یے مگر بدلا لینے کا کبھی نہیں سوچتا - سلطان محمود اپنی کرسی سے کھڑا ہو جاتا ہے اور ایاز کو مخاطب کر کہ کہتا ہے ایاز تم نے آج تک مجھے کیوں نہیں بتایا کہ تم سیّد ہو
ایاز کہتا ہے آج تک کسی کو اس بات کا علم نہ تھا کہ ایاز سیّد ہے لیکن آج بابا جی نے میرا راز کھولا آج میں بھی ایک راز کھول دیتا ہوں - اے بادشاہ سلامت یہ بابا کوئی عام ہستی نہیں یہی حضرت خضر علیہ السلام ہیں
*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔* 
شبلی نعمانی کی کتاب سے
*کامیابی کا نسخہ:*

شارک کو ایک بڑے کنٹینر میں بند کر دیا گیا اور جب کچھ اور چھوٹی مچھلیوں کو اس میں چھوڑا گیا تو شارک ان کو کچھ ہی لمحوں میں کھا گئی۔
اب ایملی (جو ایک میرین بائیولوجسٹ ہے) نے تجربے کےلئے اس کنٹینر کو درمیان میں سے ایک شیشے کی دیوار سے دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔۔۔۔۔ 
جب چھوٹی مچھلیوں کو دوسرے حصے میں چھوڑا گیا تو شارک نے پہلے کی طرح حملے کی کوشش کی مگر شیشے کی دیوار کی وجہ سے ناکام ہو گئی
لیکن وہ بار بار کئی گھنٹوں تک شیشے سے سر ٹکراتی رہی۔۔۔۔پھر تھک ہار کر اس نے سمجھوتہ کر لیا۔ اگلے دن ایملی نے پھر چھوٹی مچھلیوں کو کنٹینر کے دوسرے حصے میں چھوڑا۔ شارک نے پھر کوشش کی پر اس دفعہ شارک نے جلدی ہی ہار مان لی۔
کچھ دن مزید یہی تجربہ دہرانے کے بعد ایک ایسا دن بھی آیا کہ شارک نے ایک دفعہ بھی کوشش نہیں کی ۔۔۔۔۔
یہ دیکھ کر ایملی نے اگلے دن وہ شیشے کی دیوار ہٹا دی۔
اب حیران کن بات یہ ہے کہ چھوٹی مچھلیاں شارک کے ارد گرد تیر رہی ہیں پر شارک ان سے بالکل بے پرواہ ہے۔۔۔۔۔ کیونکہ کچھ دن کی کوشش اور ناکامی نے اُس کے لاشعور میں یہ بات ڈال دی کہ یہ چھوٹی مچھلیاں اس کی دسترس میں نہیں۔۔۔۔۔۔
۔۔۔انسان بھی اسی طرح کی کچھ ناکامیوں سے مایوس ہو کر کوشش کرنا چھوڑ دیتا ہے۔۔۔۔۔
اُسے کتنے ہی مواقع کیوں نا میسر آجائیں ۔۔۔۔ وہ اپنی پرانی ناکامیوں کی وجہ سے دسترس میں موجود ہر موقع کو ٹھوکر مار دیتا ہے
سبق:
*کامیابی کو ہر میسر موقعے پر تلاش کریں اور کوشش کرنا نا چھوڑیں ۔۔۔ ہوسکتا ہے جس موقع کو آپ نے فضول سوچ کر چھوڑا ہو وہی اللہ کی طرف سے دیا گیا ایک شاندار موقع ہو
چین میں کسی جگہ ایک عورت اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ اپنی دنیا میں گم خوش و خرم زندگی گزار رہی تھی
ایک دن اچانک اس کے بیٹے کی اجل آن پہنچی اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملا
عورت کیلئے یہ ناقابل برداشت صدمہ تھا کیونکہ اس کا بیٹا ہی اس کی کل کائنات تھا۔ اس کا ذہن نظام قدرت کو ماننے کیلئے تیار نہیں تھا۔ وہ روتی پیٹتی گاؤں کے دانا حکیم کے پاس گئی اور حکیم سے گویا ہوئی
حکیم صاحب کوئی ایسا نسخہ بتائیں جس سے میرا بیٹا لوٹ آئے، میں اس کے عوض اپنی ساری جمع پونجی خرچ کرنے کو تیار ہوں
حکیم صاحب نے ایک نظر اس غمزدہ عورت پر ڈالی اور اس کی سنجیدگی دیکھتے ہوئے کافی سوچ وبچار کے بعد بولے
ہاں ایک نسخہ ہے تو سہی
علاج کیلئے ایک ایسے سرسوں کے بیج کی ضرورت ہے جو کسی ایسے گھر سے لیا گیا ہو جس گھر میں کبھی کسی غم کی پرچھائی تک نہ پڑی ہو
عورت نے کہا یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں، میں ابھی جا کر ایسا سرسوں کا بیج ڈھونڈھ کر لے آتی ہوں۔
عورت کے خیال میں اس کا گاؤں ہی تو وہ جگہ تھی جس میں لوگوں کے گھروں میں غم کا گزر نہیں ہوتا تھا۔
بس اسی خیال کو دل میں سجائے اس نے گاؤں کے پہلے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا
اندر سے ایک جوان عورت نکلی۔ اس عورت نے اس سے پوچھا
کیا اس سے پہلے تیرے گھر نے کبھی کوئی غم دیکھا؟
جوان عورت کے چہرے پر ایک تلخی سی نمودار ہوئی اور اس نے درد بھری مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے کہا
میرا گھر ہی تو ہے جہاں زمانے بھر کے غموں نے ڈیرہ ڈالا ہوا ہے
خاتون کا کہنا تھا، سال بھر پہلے میرے خاوند کا انتقال ہوچکا ہے، میرے چار بیٹے اورچار بیٹیاں ہیں، خاوند کے انتقال کے بعد گزر اوقات بہت مشکل سے ہو رہی ہے اورآجکل گھر کا سازوسامان بیچ کر مشکلوں سے گزارہ کر رہے ہیں بلکہ اب تو بیچنے کیلئے بھی ہمارے پاس کچھ زیادہ سامان نہیں بچا
جوان عورت کی داستان اتنی دکھ بھری تھی کہ وہ عورت اس کے پاس بیٹھ کر اس کی غمگساری کرتی رہی اور جب تک اس نے جانے کی اجازت مانگی تب تک وہ دونوں سہیلیاں بن چکی تھیں۔ دونوں نے ایک دوسرے سے دوبارہ ملنے کا وعدہ لیا اور رابطہ رکھنے کی شرط پر عورت اس کے گھر سے باہر نکلی۔
مغرب سے پہلے یہ عورت ایک اور خاتون کے گھر میں داخل ہوئی، جہاں ایک اور صدمہ اس کےلئے منتظر تھا ۔ اس خاتون کا خاوند ایک خطرناک مرض میں مبتلا تھا گھر پر صاحب فراش تھا۔ گھر میں بچوں کیلئے کھانے پینے کا سامان ناصرف یہ کہ موجود ہی نہیں تھا بلکہ یہ بچے اس وقت بھوکے بھی تھے۔
عورت بھاگ کر بازار گئی اور جیب میں جتنے پیسے تھے ان پیسوں سے کچھ دالیں، آٹا اور گھی وغیرہ خرید کر لائی۔ خاتون خانہ کے ساتھ مل کر جلدی جلدی کھانا پکوایا اور اپنے ہاتھوں سے ان بچوں کو شفقت سے کھلایا ۔ کچھ دیر مزید دل بہلانے کے بعد ان سب سے اس وعدے کے ساتھ اجازت چاہی کہ وہ کل شام کو پھر ان سے ملنے آئے گی
دوسرے دن پھر یہ عورت ایک گھر سے دوسرے گھر اور ایک دروازے سے دوسرے دروازے پر اس امید سے چکر لگاتی رہی کہ کہیں اسے ایسا گھر مل جائے جس پر غموں کی کبھی پرچھائی بھی نہ پڑی ہو اور وہ وہاں سے ایک سرسوں کا بیج حاصل کرسکے مگر ناکامی ہر جگہ اس کی منتظر تھی ۔
ہرگزرتے دن کے ساتھ اس عورت کو کسی نئی دکھ بھری کہانی کاسامنا ہوتا اور یہ عورت مصائب اور غموں سے متاثر انہی لوگوں کا ایک حصہ بنتی چلی گئی اور اپنے تئیں ان سب میں خوشیاں بانٹنے کی کوشش کرتی رہی ۔ 
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ عورت بستی کے ہر گھر کا حصہ بنتی چلی گئی۔ وہ عورت نہ صرف اپنا دکھ بھول چکی تھی بلکہ وہ یہ بھی بھول چکی تھی کہ وہ ایک ایسے گھر کی تلاش میں نکلی تھی جس پر کبھی غموں کی پرچھائی نہ پڑی ہو . وہ لاشعوری طور پر دوسروں کے غموں میں شریک ہو کر ان کے غموں کا مداوا کرتی جا رہی تھی ۔
بستی کے حکیم نے گویا اسے اپنے غموں پر حاوی ہونے کیلئے ایسا مثالی نسخہ تجویز کر دیا تھا جس میں سرسوں کے بیج کا ملنا تو ناممکن تھا مگر اپنے اکلوتے بیٹے کی موت کے غم کو بھولنا ممکن تھا اوریہ اسی لمحے ہی شروع ہو گیا تھا جب وہ بستی کے پہلے گھر میں داخل ہوئی تھی
یہ قصہ کوئی معاشرتی اصلاح کا نسخہ نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک کھلی دعوت ہے ہر اس شخص کیلئے جو اپنی انا کے خول میں بند ، دوسروں کے غموں اور خوشیوں سے سروکار رکھے بغیر اپنی دنیا میں گم اور مگن رہنا چاہتا ہے
حالانکہ دوسروں کے ساتھ میل جول رکھنے اور ان کے غموں اور خوشیوں میں شرکت کرنے سے خوشیاں بڑھتی ہی ہیں کم نہیں ہوا کرتیں۔
یہ کہانی بتاتی ہے کہ آپ کا یہ معاشرتی رویہ آپ کو پہلے سے زیادہ خوش اخلاق انسان بنا دے گا - ان شاءاللہ
تنقید و طنز سے حوصلہ نہ ہارو
شور کھلاڑی نہیں ، تماشائی کرتے ہیں
روزانہ کی بنیاد پر اسلامی ، سبق آموز ، معلوماتی 
اگر مناسب سمجھیں تو شئیر اینڈ لائیک کر دیں ۔
شکریہ






No comments:

Post a Comment